پاکستان کی بیٹی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام سنتے ہی ہر پاکستانی کا دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ ایک ایسی ذہین سائنسدان جس کی زندگی کو مبینہ طور پر ناانصافی کے ایک ایسے چکر نے لپیٹ میں لے لیا، جس سے نکلنے کی راہیں آج بھی مسدود ہیں۔ حال ہی میں، ہمارے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کے حوالے سے دیے گئے ریمارکس نے ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے۔ واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے ایک تھنک ٹینک میں دیے گئے ان کے بیانات پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا، جس کے بعد اسحاق ڈار کو وضاحت دینا پڑی کہ ان کے الفاظ کو "سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا”۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کہا گیا تھا، پاکستانی عوام نے اس پر اتنا شدید ردعمل کیوں دیا، اور اس سے ڈاکٹر عافیہ کے کیس پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ آئیے اس سارے معاملے کو گہرائی سے سمجھتے ہیں۔
اٹلانٹک کونسل میں دیے گئے ریمارکس: ایک موازنہ جو سوالات کھڑے کر گیا
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے سیشن میں شریک تھے، جہاں ان سے سابق وزیراعظم عمران خان کی قید کے حوالے سے سوال کیا گیا۔ اپنے جواب میں، قانونی عمل کی وضاحت کرتے ہوئے، اسحاق ڈار نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کا حوالہ دیا۔
انہوں نے کہا، "مثال کے طور پر، اگر میں کہوں کہ عافیہ صدیقی دہائیوں سے یہاں ہیں اور خدا جانے کب تک رہیں گی… مجھے لگتا ہے کہ یہ غیر منصفانہ ہوگا۔ قانون کے صحیح عمل (due process of law) کے نتیجے میں وہ کارروائی ہوئی ہے۔ یہی بات سب پر لاگو ہوتی ہے۔ اس میں کوئی استثنا نہیں۔” انہوں نے مزید زور دیا کہ کوئی بھی مقبول سیاسی رہنما، ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے، بدامنی پھیلانے، یا ریاستی اداروں پر حملہ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ انہوں نے اسے "غداری” قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ عدالتی معاملات کا احترام کرنا چاہیے اور کسی بھی جمہوری ملک میں عدالتی نظام میں مداخلت کا حق نہیں ہوتا۔
موازنے نے پاکستانیوں کو کیوں چونکا دیا؟
اسحاق ڈار کے ان ریمارکس پر سوشل میڈیا پر فوری طور پر شدید ردعمل آیا۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کے لیے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس ایک ایسی ناانصافی کی داستان ہے جس پر گہرے زخم لگے ہیں۔ ان کے قانونی کیس کو ایک متنازعہ اور غیر منصفانہ عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جہاں مبینہ طور پر گواہوں کی عدم موجودگی، جھوٹی گواہیاں، اور تشدد کے الزامات شامل ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ محض ایک قانونی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پاکستانی قوم کے لیے ایک جذباتی اور علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ انہیں ایک ایسی مظلوم خاتون کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو بین الاقوامی انصاف کے ناقص نظام کا شکار ہوئیں۔ لہٰذا، جب ان کے معاملے کا موازنہ کسی ایسے قانونی عمل سے کیا جائے، خاص طور پر سیاسی نوعیت کے کیس سے، جسے بہت سے لوگ انصاف کے منافی سمجھتے ہیں، تو عوام میں بے چینی اور غصہ فطری ہے۔ یہ موازنہ بہت سے لوگوں کے لیے ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے درد کو کم کیا جا رہا ہو اور ان کی قربانی کو نظرانداز کیا جا رہا ہو۔
اسحاق ڈار کی وضاحت: "سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا”
شدید عوامی ردعمل کے بعد، سینیٹر اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) پر فوری طور پر وضاحت جاری کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کے کیس کا ان کا حوالہ، عمران خان کی قانونی صورتحال کے بارے میں سوال کے جواب میں، "غلط سمجھا گیا اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا”۔
ڈار نے اس بات کی تصدیق کی کہ مسلم لیگ (ن) کی successive حکومتوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے "مکمل سفارتی اور قانونی مدد” فراہم کی ہے اور یہ سلسلہ اس معاملے کے حل ہونے تک جاری رہے گا۔ انہوں نے مزید زور دیا کہ ہر ملک کے قانونی اور عدالتی نظام کا احترام کیا جانا چاہیے، خواہ وہ پاکستان ہو یا امریکہ، اور اس بات پر زور دیا کہ ڈاکٹر عافیہ کے کیس پر حکومت کا موقف "مستحکم اور دو ٹوک” ہے۔
پاکستان کا غیر متزلزل مؤقف: ڈاکٹر عافیہ کے لیے کوششیں جاری
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے پر پاکستان کا سرکاری مؤقف ہمیشہ سے انہیں واپس لانے اور ان کی رہائی کا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سمیت مختلف حکومتوں نے ان کے خاندان کو قانونی اور سفارتی مدد فراہم کرنے اور ان کی واپسی کے لیے آواز اٹھانے کا عوامی طور پر عہد کیا ہے۔ یہ عزم پاکستان میں اس وسیع عوامی جذبے کی عکاسی کرتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ ایک مظلوم ہیں اور انہیں وطن واپس لایا جانا چاہیے۔
وکیل کا سخت جواب: کلائیو سٹافورڈ سمتھ کا نقطہ نظر
اس تنازعے میں ایک اور اہم پہلو ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو سٹافورڈ سمتھ کا بیان ہے۔ سمتھ نے X پر ایک پوسٹ میں ڈپٹی وزیراعظم ڈار کے ریمارکس کو سختی سے مسترد کیا۔ انہوں نے "ڈییو پروسیس” کے تصور پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا، "معاف کیجئے لیکن یہ احمقانہ ہے! ‘ڈییو پروسیس’ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جہاں عافیہ کے پاس کوئی گواہ نہ ہوں، انہوں نے جھوٹ بولا ہو، اور سب کچھ غلط ہو۔ اسے انصاف کا قتل کہتے ہیں – نہ کہ ‘ڈییو پروسیس’۔”
سمتھ نے مزید الزام لگایا کہ ڈپٹی وزیراعظم ڈار "عافیہ کے کیس کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے” یہ کہہ کر کہ انہیں ڈییو پروسیس ملا، جبکہ ان کے بقول انہیں تشدد اور نیویارک میں ایسا ٹرائل ملا جہاں افغانستان کے اصلی گواہ موجود نہیں تھے۔ ان کے سخت الفاظ اس گہرے یقین کو اجاگر کرتے ہیں جو ڈاکٹر عافیہ کی قانونی ٹیم اور حامیوں میں پایا جاتا ہے کہ ان کی سزا بنیادی طور پر غیر منصفانہ تھی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس: ایک مختصر جائزہ
ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ایک پاکستانی نیورو سائنٹسٹ، اب بھی ایک انتہائی متنازعہ شخصیت ہیں۔ انہیں امریکی جیل میں اقدام قتل کے الزامات پر 86 سال کی حیران کن سزا سنائی گئی تھی، جو امریکہ میں اس جرم کی عام قانونی زیادہ سے زیادہ سزا سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ اب 16 سال سے قید ہیں اور دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اپنے بچوں سے الگ ہیں۔
ان کی قید کا سفر ایک پیچیدہ اور افسوسناک کہانی ہے۔ مبینہ طور پر انہیں مارچ 2003 میں کراچی سے اپنے تین بچوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے روکا گیا اور پھر پانچ سال کے لیے لاپتہ ہو گئیں۔ بعد میں 2008 میں یہ انکشاف ہوا کہ انہیں امریکہ منتقل کرنے سے قبل افغانستان میں قید رکھا گیا تھا۔ جب کہ ان کے دو بچے، احمد اور مریم، بالترتیب 2008 اور 2010 میں رہا ہو گئے، ان کے بیٹے سلیمان کا ٹھکانہ اب بھی نامعلوم ہے، جو ان کے خاندان اور حامیوں کے لیے مسلسل دکھ کا باعث ہے۔
مستقبل کا راستہ: سفارتکاری، وکالت، اور عوامی دباؤ
ڈپٹی وزیراعظم کے حالیہ ریمارکس اور اس کے بعد کی وضاحت اس نازک توازن کو ظاہر کرتی ہے جو پاکستانی حکومت کو ایسے اعلیٰ سطح کے اور جذباتی معاملات کو بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر سنبھالتے وقت برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ جہاں انہیں عالمی سطح پر قانون کی حکمرانی اور ڈییو پروسیس کی وکالت کرنی ہوتی ہے، وہیں انہیں پاکستان کے اندر ڈاکٹر عافیہ کے کیس سے متعلق گہرے عوامی جذبات سے بھی آگاہ رہنا چاہیے۔
یہ واقعہ اس بات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ:
- مستقل سفارتی کوششیں: ان کی وطن واپسی کے تمام ممکنہ راستوں کو تلاش کرنے کے لیے امریکی حکام کے ساتھ مسلسل بات چیت۔
- قانونی وکالت: ان کی سزا اور مقدمے پر نظرثانی کا مقصد رکھنے والی قانونی چارہ جوئیوں اور اپیلوں کی حمایت۔
- عوامی بیداری اور وکالت: ان کے کیس کو نمایاں رکھنے کے لیے پرامن وکالت کے ذریعے بین الاقوامی اور اندرونی دباؤ برقرار رکھنا۔
بالآخر، ہدف وہی رہتا ہے: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانا اور یہ یقینی بنانا کہ انصاف، اپنے مکمل معنوں میں، کیا جائے۔
اکثر پوچھے جانے والے سوالات (FAQs)
سوال 1: ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں اصل میں کیا کہا تھا؟
جواب: اٹلانٹک کونسل میں ایک سوال و جواب کے سیشن کے دوران، ڈپٹی وزیراعظم ڈار نے ڈاکٹر عافیہ کی طویل قید کا موازنہ عمران خان کے قانونی معاملے سے کیا، اور کہا کہ دونوں پر "قانون کا صحیح عمل” (due process of law) لاگو ہوتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی موجودہ قید قانونی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔
سوال 2: ان کے ریمارکس نے تنازع کیوں پیدا کیا؟
جواب: ان کے ریمارکس پر وسیع پیمانے پر تنقید ہوئی کیونکہ بہت سے لوگ ڈاکٹر عافیہ کے کیس کو انصاف کا سنگین قتل سمجھتے ہیں، نہ کہ کسی قانونی عمل کا جائز نتیجہ۔ ان کے کیس کا موازنہ ایک سیاسی قانونی معاملے سے کرنا غیر حساس اور ان کی مبینہ ناانصافیوں کو نظرانداز کرنے کے مترادف سمجھا گیا۔
سوال 3: ڈپٹی وزیراعظم ڈار نے اپنے بیانات کی وضاحت کیسے کی؟
جواب: انہوں نے X (سابقہ ٹوئٹر) پر وضاحت کی کہ ڈاکٹر عافیہ کے کیس کا ان کا حوالہ "غلط سمجھا گیا اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا” اور انہوں نے ان کی رہائی کے لیے پاکستان کی مسلسل سفارتی اور قانونی حمایت کی تصدیق کی۔
سوال 4: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے پر پاکستان کا سرکاری مؤقف کیا ہے؟
جواب: پاکستان کی حکومت، بشمول مسلم لیگ (ن) کی successive حکومتوں نے، ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے تمام تر سفارتی اور قانونی مدد فراہم کرنے کا مستقل مؤقف اختیار کیا ہے۔
سوال 5: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کون ہیں، اور ان کا ردعمل کیا تھا؟
جواب: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سٹافورڈ سمتھ ہیں۔ انہوں نے ڈپٹی وزیراعظم ڈار کے ریمارکس پر شدید تنقید کی، انہیں "احمقانہ” قرار دیا اور زور دیا کہ ڈاکٹر عافیہ کو "انصاف کا قتل” ملا ہے نہ کہ "ڈییو پروسیس”۔
سوال 6: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قید کے اہم تفصیلات کیا ہیں؟
جواب: ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ایک پاکستانی نیورو سائنٹسٹ، کو اقدام قتل کے الزامات پر امریکی جیل میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ 16 سال سے قید ہیں، اور ان کے بیٹے سلیمان کا ٹھکانہ اب بھی نامعلوم ہے۔