امداد کی آس اور موت کا سایہ: غزہ میں ایک المناک داستان
غزہ کی صورتحال مسلسل تشویشناک ہے، جہاں انسانی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ خوراک اور بنیادی ضروریات کی شدید قلت نے لاکھوں افراد کو بھوک اور بیماری کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے میں، جب انسانی امداد کی فراہمی بھی موت کا سبب بن جائے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر عالمی انسانی حقوق کہاں ہیں؟ یہ کہانی غزہ کی ایک ایسی ہی دل دہلا دینے والی حقیقت بیان کرتی ہے، جہاں خواتین کے لیے مخصوص ایک امدادی دن بھی خونریزی سے محفوظ نہ رہ سکا۔
یہ المناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) نے امداد کی تقسیم کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا: "صرف خواتین کے لیے مختص دن”۔ اس اقدام کا مقصد امدادی مراکز پر مردوں کے ہجوم اور اس سے پیدا ہونے والی بدنظمی اور ہلاکتوں کو کم کرنا تھا۔ سوشل میڈیا پر مسکراتی فلسطینی خواتین کی تصاویر شیئر کی گئیں جو امدادی سامان وصول کر رہی تھیں، جس نے لاکھوں ضرورت مند خواتین میں امید جگائی۔ انہی میں سے ایک مریم شیخ العید تھیں، ایک بیوہ ماں جن کے شوہر جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے تھے اور ان کے سات بچے کئی ہفتوں سے مشکل سے گزارا کر رہے تھے۔ ان کی بہن خولہ نے بتایا، "مریم نے سوچا تھا کہ خواتین کے لیے مخصوص دن ہونے کی وجہ سے بھیڑ کم ہوگی اور یہ زیادہ محفوظ ہوگا۔”
محفوظ امداد کا خواب اور اس کی بھیانک تعبیر
مریم اور خولہ، رفح میں امدادی مرکز کی جانب بڑھیں، دل میں ایک نئی امید لیے۔ تاہم، جو منظر وہاں ان کا منتظر تھا، وہ کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھا۔ خولہ کے بقول، "خواتین کا ایک بہت بڑا ہجوم تھا اور صورتحال بے قابو تھی۔” امدادی کارکنان بھیڑ کو سنبھالنے میں ناکام رہے، جس کے بعد بدترین طریقوں کا استعمال کیا گیا:
- پیپر سپرے: خواتین کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پیپر سپرے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
- اسٹن گرینیڈز: مزید افراتفری پھیلانے کے لیے اسٹن گرینیڈز پھینکے گئے، جس سے خواتین میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
اس بدنظمی کے دوران دونوں بہنیں بچھڑ گئیں۔ خولہ نے مریم کو فون کیا، مگر کال پر ایک اجنبی نے جواب دیا جس نے بتایا کہ مریم کو گولی لگی ہے اور انہیں ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد کی کالز نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ مریم شیخ العید کو گردن میں گولی لگی اور وہ موقع پر ہی شہید ہو گئیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مریم اکیلی نہیں تھیں؛ خدیجہ ابو عنزہ نامی ایک اور خاتون بھی اسی دن امداد حاصل کرنے کی کوشش میں گولی لگنے سے شہید ہوئیں۔ یہ واقعات غزہ میں امداد کی تقسیم کی سنگینی اور وہاں کے شہریوں کی بے بسی کی واضح مثال ہیں۔
GHF کا متنازع نظام اور انسانی حقوق کی پامالی
اقوام متحدہ کے مطابق، مئی کے آخر میں GHF امدادی نظام کے قیام کے بعد سے 1,000 سے زائد فلسطینی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایک ایسے نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں جو انسانی جانوں کے تحفظ میں ناکام ہے۔
GHF کے قیام پر شدید تنقید:
GHF کو اسرائیلی اور امریکی حمایت حاصل ہے، تاہم اس کے تعارف پر امدادی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ GHF کا مقصد:
- موجودہ امدادی نظام کو کمزور کرنا: اقوام متحدہ کے تحت چلنے والے قائم شدہ اور مؤثر امدادی نظام کو ایک نئے، غیر مربوط ماڈل سے بدلنا۔
- اسرائیلی کنٹرول میں اضافہ: شہریوں کو امداد حاصل کرنے کے لیے خطرناک فوجی علاقوں میں جانے پر مجبور کرنا، جس سے ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
- خطرات میں اضافہ: امداد کی تقسیم کو کم اور زیادہ خطرناک مقامات پر مرکوز کرنا، جو افراتفری اور تشدد کا باعث بنتا ہے۔
اقوام متحدہ نے بھی GHF نظام کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے، اسے غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے شہریوں کی حفاظت کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
متضاد بیانات اور زمینی حقیقت:
ان ہلاکتوں کے بعد، صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے جہاں مختلف فریقین کے بیانات زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتے۔
- عینی شاہدین: GHF کے ساتھ کام کرنے والے سابق امریکی فوجی انتھونی اگیلار نے اسرائیلی فوجیوں اور سیکیورٹی ٹھیکیداروں کو ہجوم پر فائرنگ کرتے دیکھا ہے۔ انہوں نے اسے "شہری آبادی کے خلاف بے رحمی اور اندھا دھند طاقت کا غیر ضروری استعمال” قرار دیا۔
- اسرائیلی دفاعی افواج (IDF): IDF نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے فوجی "انتباہی فائرنگ” کرتے ہیں اور "سیکھے گئے سبق” پر عمل کر رہے ہیں۔ وہ حماس پر امدادی مقامات کے قریب افراتفری پھیلانے کا الزام لگاتے ہیں اور اموات کی تعداد پر اختلاف کرتے ہیں۔
- GHF کا موقف: GHF کے ترجمان نے، ان ہلاکتوں کی رپورٹس کے باوجود، یہ دعویٰ کیا کہ "جمعرات کو اس کی سائٹ پر کوئی واقعہ یا ہلاکت نہیں ہوئی” اور "خواتین کے لیے مخصوص دن” کو "بہت کامیاب” قرار دیا۔
بیانات میں یہ تضاد اور حقائق سے انکار، غزہ میں انسانی جانوں کے بارے میں سنگین لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔ عالمی برادری اور امدادی گروپوں نے غزہ میں خوراک کی ترسیل پر اسرائیل کے کنٹرول اور اس کے پیدا کردہ خطرناک ماحول کی شدید مذمت کی ہے۔
پاکستانی عوام اور غزہ کا دکھ: ایک مشترکہ آواز
پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ اپنی غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا ہے اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھا ہے۔ غزہ میں جاری مظالم، بالخصوص امداد کی تقسیم کے دوران ہونے والی ہلاکتیں، پاکستانی عوام کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہیں۔
- ہمدردی اور یکجہتی: پاکستانی عوام غزہ کے مظلوموں کے ساتھ گہری ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم ان کی مشکلات کو سمجھتے ہیں اور ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
- عالمی برادری سے اپیل: ہم عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں امداد کی محفوظ اور بلا روک ٹوک فراہمی کو یقینی بنائیں۔ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اور انہیں کٹہرے میں لایا جائے۔
- مسلمانوں کا درد: یہ صرف فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کا درد ہے۔ ہمیں اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے مضبوط آواز بلند کرتے رہنا چاہیے۔
مستقبل کا راستہ: ایک محفوظ اور انسانیت پر مبنی امدادی نظام
غزہ میں امداد کے دوران پیش آنے والے یہ دلخراش واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی امداد کی فراہمی کے طریقوں میں بنیادی اور فوری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور کثیر جہتی نقطہ نظر ناگزیر ہے:
- شہریوں کی حفاظت اولین ترجیح: ہر امدادی ماڈل میں شہریوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے، جس میں محفوظ رسائی پوائنٹس اور ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے واضح اور پرامن پروٹوکول شامل ہوں۔
- اقوام متحدہ کے نظام کی بحالی: اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کے قائم شدہ اور تجربہ کار نظاموں کو بحال کرنا اور مضبوط کرنا ضروری ہے، جو محفوظ امدادی ترسیل کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
- جوابدہی اور شفافیت: امدادی مقامات پر ہونے والی شہری ہلاکتوں کی آزادانہ تحقیقات ضروری ہیں تاکہ ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے اور آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے سبق سیکھے جا سکیں۔
- انسانی امداد تک بلا روک ٹوک رسائی: غزہ کے تمام علاقوں میں انسانی امداد تک بلا روک ٹوک اور پیش قیاسی کے قابل رسائی یقینی بنانا بین الاقوامی قانون کے تحت ایک غیر متنازعہ ذمہ داری ہے۔
- بین الاقوامی دباؤ: تمام فریقین پر بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کرنے اور محفوظ امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے مسلسل اور شدید بین الاقوامی دباؤ ڈالنا ناگزیر ہے۔
غزہ میں جاری مصائب کی انتہا ہو چکی ہے، اور امداد کی فراہمی، جس کا مقصد مصائب کو کم کرنا ہے، اسے مزید نقصان کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ عالمی برادری کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے نظام کا مطالبہ کرے جہاں خاندان اپنی جانوں کے خوف کے بغیر خوراک حاصل کر سکیں، جہاں امداد واقعی راحت لائے، نہ کہ مزید المیہ۔
اکثر پوچھے جانے والے سوالات (FAQs)
Q1: غزہ میں "خواتین کے لیے مخصوص” امدادی دن کا بنیادی مقصد کیا تھا؟ A1: اس اقدام کا بنیادی مقصد امدادی مراکز پر رش اور بدنظمی کو کم کرنا تھا تاکہ خواتین زیادہ محفوظ طریقے سے امداد حاصل کر سکیں، مگر یہ مقصد پورا نہ ہو سکا۔
Q2: اس "خواتین کے لیے مخصوص” دن کے باوجود ہلاکتیں کیوں ہوئیں؟ A2: اس دن بھی شدید ہجوم، ہجوم کنٹرول کرنے کے لیے پیپر سپرے اور اسٹن گرینیڈز کا استعمال، اور فائرنگ کے واقعات کے نتیجے میں کم از کم دو خواتین جان کی بازی ہار گئیں۔
Q3: غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کیا ہے اور یہ متنازع کیوں ہے؟ A3: GHF ایک نئی امدادی تنظیم ہے جسے اسرائیل اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ یہ متنازع اس لیے ہے کیونکہ اسے اقوام متحدہ کے قائم شدہ نظام کو کمزور کرنے اور شہریوں کو خطرناک علاقوں میں جانے پر مجبور کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
Q4: اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ میں امداد حاصل کرتے ہوئے کتنے فلسطینی شہید ہو چکے ہیں؟ A4: اقوام متحدہ کے مطابق، مئی کے آخر میں GHF امدادی نظام کے قیام کے بعد سے 1,000 سے زائد فلسطینی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔
Q5: بین الاقوامی قانون کے تحت غزہ میں امداد کی فراہمی کے حوالے سے کیا ذمہ داریاں ہیں؟ A5: بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت، اسرائیل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غزہ کے شہریوں کی جان کی حفاظت کرے اور انہیں خوراک اور دیگر ضروری انسانی امداد تک بلا روک ٹوک رسائی فراہم کرے۔
Q6: غزہ میں امداد کی تقسیم کو زیادہ محفوظ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ A6: امداد کی تقسیم کو محفوظ بنانے کے لیے شہریوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دینا، اقوام متحدہ کے قائم شدہ نظاموں کو بحال کرنا، ہلاکتوں پر جوابدہی اور شفافیت لانا، اور تمام انسانی امداد تک بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
معتبر بیرونی ذرائع:
- اقوام متحدہ کا انسانی ہمدردی کے امور کی رابطہ کاری کا دفتر (OCHA): غزہ میں انسانی صورتحال پر جامع رپورٹس اور اعداد و شمار کے لیے۔ https://www.unocha.org/
- ایمنسٹی انٹرنیشنل: انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بین الاقوامی قوانین سے متعلق تفصیلی رپورٹس کے لیے۔ https://www.amnesty.org/
- انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC): تنازعات میں انسانی امداد اور شہریوں کے تحفظ کے بارے میں معلومات کے لیے۔ https://www.icrc.org/
آواز اٹھائیں!
مریم اور خدیجہ جیسی بہنوں کی کہانیاں ہمیں جنگ کے انسانی نقصان اور محفوظ انسانی امداد تک رسائی کی اشد ضرورت کی یاد دلاتی ہیں۔ اس مضمون کو شیئر کریں تاکہ غزہ میں ہونے والے اس ظلم کے بارے میں آگاہی بڑھے اور ایک زیادہ انسانیت پر مبنی امدادی نظام کے لیے آواز اٹھائی جا سکے۔ آپ کے خیال میں عالمی برادری کو جنگ زدہ علاقوں میں شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟