Site icon Roshan Khabar

کیا کراچی ڈوب رہا ہے یا ڈوب چکا ہے؟ یہ ہے اصل حقیقت

A flooded cityscape with a white-domed building in the center, surrounded by water and trees, under heavy rain.

مقدمہ: کراچی کے لوگوں کا ایک خوفناک خواب جو ہر سال سچ ہو جاتا ہے

کراچی کا ہر باسی یہ خواب جیتا ہے۔ وہ خواب جس کا آغاز خوشگوار موسم اور ٹھنڈی ہوا سے ہوتا ہے، اور جس کا اختتام اندھیرے، پانی اور بے بسی پر۔ جب آسمان میں کالے بادل چھاتے ہیں اور پہلی بوند گرتی ہے، تو کراچی کا دل خوش ہوتا ہے لیکن دماغ میں ایک خوف کی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔ کیا اس بار بھی وہی ہوگا؟ کیا سڑکیں دریا بن جائیں گی؟ کیا بجلی چلی جائے گی؟ کیا گھروں میں پانی گھس آئے گا؟

یہ کوئی فلمی کہانی نہیں، یہ ہر سال کراچی کے لوگوں کی تلخ حقیقت ہے۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر اس حقیقت کو پوری شدت سے آشکار کر دیا ہے۔ شہر کے بیشتر علاقے پانی میں ڈوب گئے، گاڑیاں ڈوب گئیں اور لوگوں کی زندگیاں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔ یہ صرف پانی کا مسئلہ نہیں، یہ ہمارے نظام، ہماری منصوبہ بندی اور شاید ہماری تقدیر کا سوال ہے۔

اس مضمون میں، ہم اس سوال کا گہرائی سے جائزہ لیں گے کہ کیا کراچی ڈوب رہا ہے یا ڈوب چکا ہے؟ ہم صرف یہ نہیں بتائیں گے کہ کیا ہوا، بلکہ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر کیوں ہوا۔ یہ مضمون صرف خبر نہیں، یہ ایک داستان ہے جو ہر اس انسان کے دل کو چھوئے گی جو اس شہر سے محبت کرتا ہے اور جو اس شہر کی اس حالت پر غمگین ہے۔

کیا کراچی ڈوب رہا ہے یا ڈوب چکا ہے؟ ایک سوال جو ہر زبان پر ہے

سوشل میڈیا پر حالیہ بارشوں کے بعد ایک ہی جملہ ٹرینڈ کر رہا تھا، "کراچی ڈوب گیا” اور "کراچی ڈوب رہا ہے۔” اس میں کیا فرق ہے؟ یہ صرف دو الفاظ کا فرق نہیں، یہ ایک امید اور ایک مایوسی کی جنگ ہے۔

دونوں ہی جملے کراچی کے لوگوں کے دلوں میں موجود درد اور غصے کو بیان کرتے ہیں۔

اس بار کیا ہوا؟ بارش یا عذاب؟

محکمہ موسمیات نے بارش کی پیشگوئی تو کی تھی، لیکن اس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ بارش کا سلسلہ مسلسل کئی گھنٹوں تک جاری رہا جس نے شہر کا سارا نظام درہم برہم کر دیا۔

کیا بارشیں واقعی اتنی زیادہ تھیں؟ حقیقت یا بہانہ؟

یہ دلیل اکثر دی جاتی ہے کہ بارش معمول سے زیادہ تھی۔ لیکن کیا یہ بات درست ہے؟ دنیا کے کئی شہر ایسے ہیں جہاں کراچی سے کئی گنا زیادہ بارش ہوتی ہے، لیکن وہ مکمل طور پر مفلوج نہیں ہوتے۔ اصل مسئلہ بارش کی شدت نہیں، بلکہ شہر کا ناقص اور بوسیدہ نظام ہے۔

آنسو، غصہ اور مزاح: جب کراچی X (Twitter) پر آیا

جب جسمانی طور پر کچھ نہیں ہو سکتا تو لوگ سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہیں۔ X (Twitter) اس بار بھی کراچی کے لوگوں کے جذبات کا ترجمان بنا۔

اصل مجرم کون؟ وہ وجوہات جو کراچی کو ہر سال تباہ کرتی ہیں

یہ کہنا کہ صرف بارش ذمہ دار ہے، حقیقت سے منہ موڑنا ہے۔ اس تباہی کے اصل مجرم کچھ اور ہیں۔

نالوں پر قبضے: شہر کے کینسر کا علاج کیوں نہیں؟

کراچی میں پانی کی نکاسی کا قدرتی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ نالوں پر غیر قانونی قبضے اور تعمیرات نے ان کے راستوں کو مسدود کر دیا ہے۔ ہر سال حکومت ان نالوں کو صاف کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن حقیقی طور پر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کچرے کا ڈھیر نالوں کو مزید بند کر دیتا ہے، جس سے پانی شہر کی سڑکوں پر جمع ہو جاتا ہے۔

انتظامی ناکامی: وہ وعدے جو ہر سال ٹوٹ جاتے ہیں

ہر حکومت یہ وعدہ کرتی ہے کہ وہ کراچی کے مسائل حل کرے گی، لیکن کوئی بھی اسے عملی جامہ نہیں پہنا پاتا۔ بلدیاتی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کا مسئلہ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ کوئی ایک اتھارٹی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتی اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی بڑا پروجیکٹ مکمل نہیں ہو پاتا۔

موسمیاتی تبدیلی: ایک ایسا خطرہ جس کو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا

ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر میں بارشوں کا انداز بدل رہا ہے۔ پہلے جو بارشیں 50 سال میں ایک بار ہوتی تھیں، اب وہ ہر سال ہونے لگی ہیں۔ جب تک ہم اس عالمی مسئلے کو تسلیم نہیں کریں گے اور اس سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی نہیں اپنائیں گے، یہ صورتحال مزید خراب ہوتی رہے گی۔

بیرونی ماخذ: (یہاں کسی عالمی موسمیاتی ادارے جیسے WMO کی رپورٹ کا لنک ڈالیں)

ہیرو کون ہے؟ جب شہر خود اپنا سہارا بنا

اس مایوسی کے عالم میں بھی، کراچی نے ثابت کیا کہ اس کے دل میں انسانیت زندہ ہے۔

پڑوسیوں کی مدد: سیلاب میں بھی انسانیت زندہ رہی

جب گاڑیاں سڑکوں پر ڈوبی ہوئی تھیں، تو بہت سے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گاڑیوں کو دھکا لگایا اور لوگوں کو محفوظ جگہوں تک پہنچایا۔ کچھ ہوٹلوں اور دکانوں نے پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے کام تھے جنہوں نے ثابت کیا کہ کراچی کا حقیقی روح اس کے لوگوں میں ہے۔

وہ ریسکیو ورکرز جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈالی

ریسکیو 1122 اور دیگر اداروں کے اہلکاروں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر لوگوں کو ڈوبتے ہوئے گھروں سے نکالا۔ ان کی قربانیاں قابلِ ستائش ہیں۔

حل کیا ہے؟ ڈوبتے کراچی کو بچانے کا آخری راستہ

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل صرف وعدوں سے نہیں، بلکہ عمل سے نکلے گا۔

متعلقہ لنک: (اپنی ویب سائٹ کے اربن پلاننگ سے متعلق کسی دوسرے آرٹیکل کا لنک یہاں شامل کریں)

خلاصہ: ایک شہر کی داستان جو ٹوٹتا ہے لیکن ہار نہیں مانتا

کراچی میں بارش کا نظام ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن اس کا حل ناممکن نہیں ہے۔ یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہ ایک کہانی ہے جو غصے، دکھ اور مایوسی سے شروع ہوتی ہے، لیکن امید پر ختم ہوتی ہے۔ کراچی شاید ڈوب رہا ہے، لیکن اس کی روح، اس کے لوگوں کا حوصلہ اور ان کی مزاحمت ابھی زندہ ہے، اور جب تک یہ زندہ ہے، یہ شہر کبھی نہیں ڈوب سکتا۔

ایکشن: آپ کا کیا خیال ہے؟ کراچی کے اس مسئلے کا اصل ذمہ دار کون ہے اور اسے حل کرنے کے لیے سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ اپنی قیمتی رائے کمنٹس میں ضرور دیں۔

Exit mobile version