Site icon Roshan Khabar

پاکستان سیلاب کے بعد بحالی کی جدوجہد: بجلی اور سڑکوں کی مکمل بحالی کی کہانی

A man rides a motorcycle through a flooded street, with other vehicles and people in the background.

پاکستان کی تاریخ قدرتی آفات کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر سال مون سون کی بارشیں جہاں زندگی بخشتی ہیں، وہیں بعض اوقات تباہی کا بھیانک روپ لے لیتی ہیں۔ اس سال بھی، شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں بادل پھٹنے اور اچانک آنے والے سیلاب نے پوری قوم کو غم میں ڈبو دیا۔ 300 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، ہزاروں گھر تباہ ہوئے اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ میڈیا پر صرف تباہی کی خبریں تھیں، لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود، ایک ایسی کہانی بھی تھی جو شاید اکثر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہی: بحالی کی کہانی۔ یہ کہانی حکومتی اداروں، پاک فوج اور سب سے بڑھ کر عام پاکستانیوں کے ناقابلِ یقین عزم کی ہے۔

یہ مضمون صرف اعداد و شمار کی بات نہیں کرتا، بلکہ ان کوششوں اور قربانیوں کا احاطہ کرتا ہے جن کے نتیجے میں ہزاروں بے گھر افراد کو دوبارہ امید ملی۔ ہم دیکھیں گے کہ کیسے حکومت نے ہنگامی اقدامات اٹھائے، پاک فوج نے کس طرح امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا، اور کس طرح ایک تباہ شدہ نظام کو دوبارہ کھڑا کرنے کی جدوجہد کی گئی۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ جب پاکستانی قوم متحد ہو جائے تو کوئی بھی مشکل اسے شکست نہیں دے سکتی۔

تباہی کا منظر: اعداد و شمار سے کہیں بڑھ کر ایک دل دہلا دینے والی کہانی

تازہ ترین رپورٹس کے مطابق، اس سال کے مون سون سیزن میں اب تک 600 سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا حصہ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں آیا، جہاں ایک ہی رات میں بادل پھٹنے سے قیامت صغریٰ کا منظر پیش آیا۔

بونیر اور خیبر پختونخوا میں قیامت صغریٰ

بونیر کی پرسکون فضا اچانک ایک خوفناک آفت میں بدل گئی۔ پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ گاؤں کے گاؤں بہہ گئے۔ 280 سے زائد افراد ایک ہی ضلع میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ انہیں وارننگ کا موقع ہی نہیں ملا۔ یہ واقعہ صرف جانی نقصان کا باعث نہیں بنا، بلکہ اس نے پورے علاقے کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کر دیا۔ گھر، اسکول، اور سڑکیں سب کچھ پانی کے ساتھ بہہ گیا۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جو شاید برسوں تک نہیں بھرے گا۔

ملک بھر میں پھیلی تباہی: کہاں، کتنا اور کیسے؟

یہ تباہی صرف خیبر پختونخوا تک محدود نہیں تھی۔ پنجاب، گلگت بلتستان، سندھ اور آزاد کشمیر بھی شدید بارشوں اور سیلاب کی زد میں آئے۔ کراچی جیسے بڑے شہر بھی اربن فلڈنگ کا شکار ہوئے، جہاں کچھ علاقوں میں سڑکوں پر سینے تک پانی کھڑا ہوگیا۔ ہر طرف سے ایک ہی قسم کی خبریں آ رہی تھیں: رابطہ سڑکیں بند، بجلی غائب اور لوگ بے بسی کی حالت میں۔ اس نے حکومت اور متعلقہ اداروں پر بے پناہ دباؤ ڈال دیا۔

بحالی کی جنگ: اندھیرے سے روشنی اور تنہائی سے رابطہ کی طرف

اس مشکل وقت میں، حکومتِ پاکستان اور اس کے ادارے ایک بڑے چیلنج کا سامنا کر رہے تھے۔ پہلا اور سب سے اہم کام یہ تھا کہ متاثرہ علاقوں تک امداد کو کیسے پہنچایا جائے۔ اس کے لیے بجلی اور سڑکوں کی بحالی ناگزیر تھی۔

بجلی کی بحالی: گھروں میں روشنی اور زندگی میں امید

سیلاب نے شمالی علاقوں میں بجلی کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نظام کو بری طرح نقصان پہنچایا تھا۔ وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ انجینئرز کی ٹیمیں دن رات کام کر رہی ہیں۔ ان کی انتھک محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف چند دنوں کے اندر ہی، متاثرہ علاقوں میں 70 فیصد تک بجلی بحال کر دی گئی۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی، کیونکہ بجلی نہ صرف گھروں کو روشن کرتی ہے بلکہ مواصلاتی نظام اور طبی سہولیات کو بھی فعال کرتی ہے۔ وزیر توانائی خود فیلڈ میں موجود رہے تاکہ کام کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔

سڑکوں کی مرمت: ٹوٹے ہوئے راستے اور جُڑے ہوئے دل

بونیر، شانگلہ، اور سوات میں سڑکیں مکمل طور پر بہہ گئی تھیں، جس سے امدادی کارروائیاں ناممکن ہو گئی تھیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ذاتی طور پر بحالی کے کام کی نگرانی کی اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (FWO) کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کا حکم دیا۔

ان اداروں کی کوششوں سے، بڑی شاہراہوں، جیسے کہ مالاکنڈ اور بشام روڈ، کو دوبارہ کھول دیا گیا۔ اس کے علاوہ، 90 شاہراہوں میں سے اکثر کو عارضی طور پر ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے، جبکہ مکمل مرمت کا کام جاری ہے۔ یہ سڑکیں ہزاروں ٹن راشن، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی ترسیل کے لیے ایک لائف لائن بن گئیں۔

میدان میں موجود ہیرو: ایک منظم اور مثالی کاوش

اس قدرتی آفت کا مقابلہ صرف حکومت نہیں کر سکتی تھی۔ یہ ایک ٹیم ورک تھا۔

پاک فوج کا لازوال کردار: ہر مشکل میں قوم کے ساتھ

جب بھی قوم پر کوئی مشکل آتی ہے، پاک فوج سب سے آگے نظر آتی ہے۔ سیلاب کی اس تباہی میں بھی پاک فوج نے اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ آرمی چیف کی ہدایات پر، فوج کے دستے، ڈاکٹرز اور انجینئرز نے فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر امدادی سرگرمیاں شروع کر دیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے واضح کیا کہ یہ امدادی سرگرمیاں متاثرہ علاقوں کی مکمل بحالی تک جاری رہیں گی۔

این ڈی ایم اے اور حکومتی عزم: ایک دن کی تنخواہ اور بہت کچھ

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) نے بھی بھرپور کام کیا۔ چیئرمین NDMA نے بتایا کہ 456 ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں اور 400 سے زائد ریسکیو آپریشنز مکمل کیے جا چکے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بھی اپنی ذمہ داری نبھائی۔ وفاقی کابینہ نے ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ کی جبکہ خیبر پختونخوا حکومت نے بھی اسی طرح کے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ یہ تمام اقدامات اس عزم کا ثبوت ہیں کہ حکومت اپنے عوام کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

مقامی لوگوں کی قربانیاں: ایک ہاتھ سے مدد، دوسرے سے حوصلہ

اس تمام آپریشن میں، سب سے بڑے ہیرو وہ عام پاکستانی تھے جو مشکل کی اس گھڑی میں اپنے پڑوسیوں کی مدد کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو بچایا، امدادی سامان فراہم کیا اور متاثرین کے لیے پناہ گاہیں قائم کیں۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ انسانیت ابھی بھی زندہ ہے۔

آگے کی مشکلات: موسم کا چیلنج اور مستقبل کی تیاری

بحالی کی کامیابی کے باوجود، چیلنجز ابھی ختم نہیں ہوئے۔ مون سون کا موسم ابھی جاری ہے اور مزید بارشوں کا امکان ہے۔

مون سون کی نئی لہریں: ایک مسلسل خطرہ

چیئرمین این ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ مون سون کے مزید اسپیل باقی ہیں، جو ستمبر تک جاری رہ سکتے ہیں۔ اس لیے تمام اداروں کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جو مستقبل میں مزید تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔

قبل از وقت انتباہی نظام: کیا ہم تیار ہیں؟

بونیر کا واقعہ ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے کہ کیا ہمارے قبل از وقت انتباہی نظام (Early Warning Systems) اتنے فعال ہیں کہ وہ اچانک آنے والی آفات سے نمٹ سکیں؟ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی انتباہ نہیں ملا، جبکہ حکام کا مؤقف ہے کہ یہ تباہی اتنی اچانک تھی کہ وقت نہیں ملا۔ یہ ایک اہم سبق ہے کہ ہمیں اپنے وارننگ سسٹم کو جدید بنانا ہوگا تاکہ آئندہ اس قسم کے نقصانات سے بچا جا سکے۔

نتائج اور سبق: کیا ہم نے کچھ سیکھا؟

اس تباہی نے نہ صرف ہمیں ایک گہرا زخم دیا ہے بلکہ کچھ اہم سبق بھی سکھائے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ہمیں صرف ہنگامی امداد پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ طویل مدتی حکمت عملیوں پر بھی کام کرنا چاہیے۔ بہتر انفراسٹرکچر، مضبوط وارننگ سسٹم اور کمیونٹی کی سطح پر تیاری ہی ہمیں مستقبل کی آفات سے بچا سکتی ہے۔ حکومت اور عوام کو مل کر موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

خلاصہ: ایک قوم کی مزاحمت اور حوصلے کی داستان

پاکستان کے سیلاب متاثرین کی کہانی صرف دکھ اور تکلیف کی نہیں، بلکہ مزاحمت اور حوصلے کی بھی ہے۔ بجلی کی بحالی، سڑکوں کی مرمت اور امدادی کارروائیوں کی تیز رفتاری یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ مضمون ان تمام ہیروز کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں اپنی جان اور مال کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوسروں کی مدد کی۔

ایکشن: آپ کا کیا خیال ہے؟ پاکستان کو مستقبل کی آفات سے نمٹنے کے لیے مزید کیا اقدامات کرنے چاہییں؟ اپنی قیمتی رائے کمنٹس میں ضرور دیں۔

Exit mobile version