کراچی، پاکستان – 25 جولائی 2025: جنوب مشرقی ایشیا میں ایک نیا اور خطرناک تنازع بھڑک اٹھا ہے، جہاں تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان طویل عرصے سے جاری سرحدی تنازعات شدید اور ہلاکت خیز جھڑپوں میں بدل گئے ہیں۔ فضائی حملے، گولہ باری اور راکٹ حملے جاری ہیں، جن کے نتیجے میں تھائی لینڈ میں اب تک کم از کم 13 شہری اور ایک فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے، جس سے پورے خطے میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں اور عالمی مداخلت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
زمین پر کیا ہو رہا ہے؟
صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ اطلاعات کے مطابق، کمبوڈین افواج نے تھائی علاقے میں گہری گولہ باری اور راکٹ حملے کیے ہیں، جن میں ہسپتالوں اور پٹرول پمپس جیسے شہری علاقے بھی نشانہ بنے ہیں۔ اس کے جواب میں، تھائی لینڈ نے F-16 لڑاکا طیارے بھیجے ہیں اور کمبوڈیا کے اندر فوجی اہداف پر بمباری کی ہے۔
دونوں ممالک ایک دوسرے کو تشدد بھڑکانے کا الزام دے رہے ہیں، خاص طور پر قدیم تا موآن تھوم مندر کے قریب کے علاقے میں۔ لڑائی اب سرحد کے ساتھ کم از کم چھ علاقوں میں پھیل چکی ہے، جس سے سرحد بند کر دی گئی ہے اور 40,000 سے زائد شہریوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر عارضی پناہ گاہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ تصور کریں ان کی آنکھوں میں خوف جب وہ اپنے تمام اثاثے سمیٹ کر، بموں کی بارش سے بچنے کے لیے بھاگ رہے ہیں!
پاکستان کے لیے یہ کیوں اہم ہے؟
یہ محض ایک دور دراز کا مسئلہ نہیں ہے۔ کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن مانیٹ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا فوری اجلاس بلانے کی درخواست کی ہے۔ اور اندازہ لگائیں کہ اس اہم لمحے میں عالمی امن اور سلامتی کی قیادت کون کر رہا ہے؟ پاکستان!
جولائی 2025 کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے موجودہ صدر کی حیثیت سے، پاکستان عالمی بحرانوں سے نمٹنے میں پیش پیش ہے۔ اقوام متحدہ میں ہمارے مستقل نمائندے، سفیر عاصم افتخار احمد، اس بڑھتے ہوئے تنازعے پر کونسل کے ردعمل کو رہنمائی دینے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کو برقرار رکھنے اور تنازعات کے پرامن حل کو فروغ دینے میں پاکستان کے اہم کردار کو اجاگر کرتا ہے، جو ایک ایسا اصول ہے جس کی ہم ہمیشہ وکالت کرتے ہیں۔
بڑی تصویر:
تشدد کا یہ دھماکہ ایک دہائیوں پرانے سرحدی تنازعہ کی وجہ سے ہوا ہے، جو حال ہی میں نئی بچھائی گئی بارودی سرنگوں کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ کا باعث بنا ہے۔ دونوں ممالک میں قوم پرستی کے جذبات عروج پر ہیں، جس کی وجہ سے فوری حل مشکل نظر آتا ہے۔
آگے کیا ہوگا؟
مذاکرات کے لیے علاقائی مطالبے بڑھ رہے ہیں، اور ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم (جو ASEAN کے موجودہ چیئرمین ہیں) نے پہلے ہی دونوں رہنماؤں سے بات چیت کی ہے۔ چین نے بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بات چیت پر زور دیا ہے۔ تاہم، ماہرین کا خیال ہے کہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے اس سے پہلے کہ بہتری آئے۔
پاکستان کی نظریں اس بڑھتے ہوئے بحران پر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہماری سفارتی کوششیں جنگ بندی اور پرامن حل کی طرف دھکیلنے میں اہم ہوں گی۔ ہم امن کے حامی ہیں، اور ہم اپنا کردار ادا کریں گے!