The image is a graphic featuring a man on a golf course with a news headline overlay. Man on Golf Course: The man is wearing a white baseball cap with "VISA" written on it, a blue tracksuit, and white gloves. He is holding a golf club in his right hand and has his left hand raised in the air. The man is standing on a green golf course with sand traps and trees in the background. News Headline Overlay: A red and blue banner at the top reads "BREAKING NEWS" in white text. Below this, there is a dark blue box with white Urdu text inside. In the top-left corner, there is a logo that says "ROSHAN KHABAR" in blue and yellow text, accompanied by a yellow television icon. Background: The background of the image is a serene golf course with lush green grass and trees. Overall, the image appears to be a news graphic or advertisement related to golf or sports news, possibly from Pakistan given the use of Urdu text.

گولف کا سفر یا سفارتی یلغار؟ اسکاٹ لینڈ میں ٹرمپ کی موجودگی

جب یہ خبر پھیلی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسکاٹ لینڈ کا گولف دورہ کر رہے ہیں – وہ سرزمین جو ان کے آباؤ اجداد سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور ان کے دو بہترین گولف کورسز کی میزبان ہے – تو بہت سے لوگوں نے ایک آرام دہ چھٹی کی توقع کی، جو گولف کی شارٹس، پٹ، اور شاید چند تصویری لمحات سے بھری ہو۔ لیکن، ٹرمپ ٹرن بیری کے سبزہ زاروں پر ان کے دوسرے دن جو کچھ سامنے آیا، وہ کسی بھی طرح سے پرسکون نہیں تھا۔ ایک حیرت انگیز موڑ پر، گولف کا یہ سفر ایک غیر متوقع سفارتی مشن میں بدل گیا، جب ٹرمپ نے عوامی طور پر تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحدی تنازعہ میں اپنی مداخلت کا اعلان کیا۔ فرصت، ذاتی برانڈنگ، اور ہائی اسٹیکس بین الاقوامی تعلقات کے اس عجیب امتزاج نے عالمی سطح پر گفتگو چھیڑ دی، جبکہ برطانیہ بھر میں ان کی موجودگی کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے، جو ان کے اس دورے کو ایک چیلنج پیش کر رہے تھے۔

جنوب مشرقی ایشیا کا طوفان: تھائی لینڈ-کمبوڈیا سرحدی تنازعہ پھر بھڑک اٹھا

کئی دہائیوں سے، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان مشترکہ سرحد تناؤ کا ایک نقطہ رہی ہے، جو اکثر متنازعہ علاقوں اور قدیم تاریخی مقامات پر مسلح تصادم میں بدل جاتی ہے۔ یہ دیرینہ رگڑ ایک بار پھر بھڑک اٹھی، جس نے غیر متوقع بین الاقوامی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔

قدیم تنازعات، جدید جھڑپیں

تنازعہ کی جڑیں تاریخ میں گہری ہیں، خاص طور پر طویل عرصے سے متنازعہ قدیم مندروں کے مقامات کے گرد۔ یہ تاریخی نشانات، جو اکثر سرحد کے ناہموار علاقوں میں واقع ہیں، دونوں اقوام کے لیے بے پناہ ثقافتی اور قومی اہمیت رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کی خلاف ورزی جارحیت کا ایک طاقتور محرک بن جاتی ہے۔ یہ خطہ خود پہاڑی سلسلوں، جنگلی جنگلات، اور زرعی اراضی سے بنا ہے جہاں مقامی لوگ ربڑ اور چاول کاشت کرتے ہیں، جس سے اس تنازعہ میں اقتصادی اور معاشی جہتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔

شدید ہوتا تنازعہ: بارودی سرنگ کی مہلک گونج

لڑائی میں تازہ اضافہ جمعرات، 24 جولائی 2025 کو ایک تباہ کن واقعے کے بعد شروع ہوا: سرحد پر ایک بارودی سرنگ کا دھماکہ جس میں افسوسناک طور پر تھائی فوج کے پانچ اہلکار زخمی ہوئے۔ اس عمل نے فوری طور پر جھڑپوں کا ایک نیا دور شروع کیا، جو ملکوں کے دیہی سرحدی علاقے میں پھیلتا اور شدید ہوتا گیا۔ ہفتہ، 26 جولائی 2025 تک، ہلاکتوں کے خوفناک اعداد و شمار نے لڑائی کی شدت کی تصدیق کی: دونوں اطراف 32 افراد کی ہلاکتیں، اور 130 سے زائد زخمی۔ جھڑپیں تیسرے دن بھی جاری رہیں، خاص طور پر ساحلی علاقوں میں جہاں دونوں ممالک خلیج تھائی لینڈ پر ملتے ہیں، جو مرکزی فرنٹ لائنز سے تقریباً 250 کلومیٹر جنوب مغرب میں ہے۔ یہ غیر مستحکم صورتحال فوری طور پر کشیدگی میں کمی اور سفارتی مداخلت کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔

اندرونی لنک کا مشورہ: اپنی سائٹ پر "جنوب مشرقی ایشیا میں تاریخی تنازعات” پر ایک مضمون کا لنک شامل کریں۔

ٹرمپ کی ‘ٹروتھ سوشل ڈپلومیسی’: ایک براہ راست انداز

ٹرن بیری کے سرسبز میدانوں سے، ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غیر روایتی سفارتی اقدام کا آغاز کیا، اپنے پسندیدہ مواصلاتی پلیٹ فارم، ٹروتھ سوشل، کو استعمال کرتے ہوئے لڑنے والے فریقوں کے ساتھ اپنی براہ راست مشغولیت کا اعلان کیا۔

بینکاک اور نوم پینہ کو فون کالز

ہفتہ، 26 جولائی 2025 کو، ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل نیٹ ورک پر اعلان کیا: "ابھی ابھی کمبوڈیا کے وزیر اعظم سے تھائی لینڈ کے ساتھ جنگ روکنے کے بارے میں بات کی ہے۔” انہوں نے فوری طور پر ایک اور پوسٹ میں کہا، "میں نے ابھی ابھی تھائی لینڈ کے قائم مقام وزیر اعظم سے بات کی ہے، اور یہ بہت اچھی گفتگو تھی۔” ایک سابق امریکی صدر کی طرف سے یہ براہ راست بات چیت، جو ایک نجی گولف ٹرپ کے دوران کی گئی، بین الاقوامی ثالثی کے لیے ایک منفرد، اگرچہ غیر روایتی، نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہے۔ ٹرمپ مبینہ طور پر اپنے بیٹے ایرک اور برطانیہ میں امریکی سفیر وارن اسٹیفنز کے ساتھ اپنے ٹرن بیری ریزورٹ میں کھیل رہے تھے، جس سے ان اعلیٰ سطحی کالز میں ایک غیر معمولی پرت شامل ہو گئی۔

"فوری جنگ بندی، امن، اور خوشحالی” کا وژن

ٹرمپ کی پوسٹس میں فوری حل کے لیے ان کا وژن بیان کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں سے بات کرنے کے بعد، انہوں نے نتیجہ اخذ کیا: "تھائی لینڈ، کمبوڈیا کی طرح، فوری جنگ بندی، اور امن چاہتا ہے… میں اب یہ پیغام کمبوڈیا کے وزیر اعظم تک پہنچاؤں گا۔ دونوں فریقوں سے بات کرنے کے بعد، جنگ بندی، امن، اور خوشحالی قدرتی لگتی ہے۔ ہم جلد ہی دیکھیں گے!” ان کی زبان، ان کے عوامی اعلانات کی خصوصیت، پیچیدہ جیو پولیٹیکل مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک براہ راست، لین دین پر مبنی نقطہ نظر پر زور دیتی ہے، جس کا مقصد ایک فوری معاہدہ کرنا ہے۔

تجارت کا حربہ: سفارت کاری کا نیا اوزار؟

اپنی سفارتی پیش قدمیوں میں ایک اہم وزن شامل کرتے ہوئے، ٹرمپ نے تجارتی معاہدوں کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کی آمادگی کا بھی اشارہ دیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ اس وقت تک تھائی لینڈ یا کمبوڈیا میں سے کسی کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر آگے نہیں بڑھیں گے جب تک کہ لڑائی بند نہیں ہو جاتی۔ یہ حربہ قومی سلامتی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اقتصادی دباؤ کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کے ان کے دیرینہ یقین کو واضح کرتا ہے، جس کا مقصد سرحدی تنازعہ کا فوری حل نکالنے کی ترغیب دینا ہے۔ یہ نقطہ نظر، اگرچہ امن مذاکرات کو تیز کرنے میں ممکنہ طور پر مؤثر ہے، لیکن بین الاقوامی تجارتی تعلقات اور تنازعات کے دوران انسانی ہمدردی کے پہلوؤں کے لیے اس کے وسیع تر مضمرات پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔

اندرونی لنک کا مشورہ: اپنی سائٹ پر "بین الاقوامی تنازعات میں ثالثی کا کردار” پر ایک مضمون کا لنک شامل کریں۔ بیرونی لنک کا مشورہ 1: ٹروتھ سوشل (ٹرمپ کے اکاؤنٹ سے متعلقہ پوسٹس، اگر عوامی طور پر قابل رسائی اور مناسب ہوں تو)۔

گولف کورس سے آگے: ٹرمپ کا استقبال کرنے والے احتجاجی مظاہرے

جبکہ ٹرمپ گولف ڈپلومیسی کی کوشش کر رہے تھے، اسکاٹ لینڈ میں ان کی موجودگی نے ایک مختلف قسم کا طوفان کھڑا کر دیا: برطانیہ بھر میں وسیع پیمانے پر احتجاج۔ ان مظاہروں نے ان کی سیاست اور پالیسیوں کے خلاف گہری مخالفت کو اجاگر کیا، یہاں تک کہ سکاٹش ورثے سے تعلق رکھنے والوں میں بھی۔

"وہ ایک دھبہ ہیں”: سکاٹش جڑیں، عوامی غم و غصہ

ان کی مرحومہ والدہ کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے ہونے کے باوجود، ٹرمپ کے دورے کو عوامی سطح پر نمایاں ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایڈنبرا میں امریکی قونصل خانے کے سامنے سینکڑوں مظاہرین ہفتہ کے روز جمع ہوئے، پلے کارڈز اٹھائے اور نعرے لگائے۔ ریلی میں مقررین نے واضح کیا کہ ٹرمپ کا خیرمقدم نہیں کیا گیا اور انہوں نے برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر کو امریکی تجارتی معاہدے پر کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا، جو برطانیہ کی اشیاء پر امریکی ٹیرف سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا۔

مارک گورمین، 63، ایک ایڈورٹائزنگ پروفیشنل نے اس جذبے کو سموتے ہوئے کہا، "زیادہ تر سکاٹش لوگوں کا ٹرمپ کے بارے میں یہی خیال ہے کہ، اگرچہ ان کی سکاٹش جڑیں ہیں، وہ ایک دھبہ ہیں… مجھے ڈونلڈ ٹرمپ اور ہر اس چیز سے گہری نفرت ہے جس کی وہ حمایت کرتے ہیں۔” یہ ذاتی لیکن وسیع پیمانے پر مشترکہ جذبہ ان دیرینہ سیاسی تقسیموں کو نمایاں کرتا ہے جنہیں ٹرمپ عالمی سطح پر مسلسل پیدا کر رہے ہیں۔

مختلف آوازوں کا اتحاد: موسمیاتی تبدیلی سے فلسطین تک

احتجاج صرف ایڈنبرا تک محدود نہیں تھے؛ دیگر بڑے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے، جس نے ایک متنوع "اسٹاپ ٹرمپ کولیشن” کو ایک ساتھ لایا۔ اس اتحاد میں مختلف سرگرم گروہ شامل تھے، بشمول:

  • ماحولیاتی کارکن جو موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں کے بارے میں فکرمند تھے۔
  • اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے مخالفین، ایک ایسا مسئلہ جسے ٹرمپ انتظامیہ نے بھرپور حمایت دی تھی۔
  • یوکرین کے حامی گروہ، جو روسی جارحیت کا سامنا کرنے والی قوم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے۔

یہ وسیع اتحاد عالمی مسائل کی وسیع صف کو ظاہر کرتا ہے جو ٹرمپ کی قیادت اور پالیسیوں کے تصورات سے ٹکراتے ہیں، جس سے ایک بڑی تعداد میں افراد کو اپنی مخالفت کا اظہار کرنے کے لیے متحرک کیا جاتا ہے۔

ایپسٹائن کا سایہ: جلتی پر تیل

تنازعہ کی ایک اور پرت شامل کرتے ہوئے، کچھ مظاہرین نے ٹرمپ کے ساتھ جیفری ایپسٹائن کی تصاویر والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ اس نے امریکی میڈیا میں جاری "فڈنگ فرنزی” اور ان کے MAGA (میک امریکا گریٹ اگین) کے حامیوں کی طرف سے ایپسٹائن کیس کی فائلوں پر ردعمل کی طرف اشارہ کیا، ایک ایسا مسئلہ جس نے سابق صدر کو تیزی سے پریشان کیا ہے۔ ان کے دورے کے دوران اس حساس موضوع کا سامنے آنا بلاشبہ مظاہرین میں ٹرمپ مخالف جذبات کو مزید بھڑکایا۔

بیرونی لنک کا مشورہ 2: برطانیہ میں ٹرمپ کے خلاف احتجاج کو کور کرنے والی ایک قابل اعتماد نیوز سورس (مثلاً، BBC News یا The Guardian)۔

وسیع تر جیو پولیٹیکل منظرنامہ: تجارتی مذاکرات اور عالمی اثرات

گولف کورس اور احتجاج سے پرے، ٹرمپ کے سکاٹش شیڈول میں وسیع تر جیو پولیٹیکل اور اقتصادی بات چیت پر بھی توجہ مرکوز کی گئی، جو بین الاقوامی سطح پر ان کے مسلسل اثر و رسوخ کو نمایاں کرتی ہے۔

اسٹارمر اور وان ڈیر لیین سے ملاقات

جبکہ گولف ان کے دورے کا بنیادی مقصد بتایا گیا تھا، ٹرمپ کے واضح ارادے تجارتی مذاکرات میں شامل ہونا تھا۔ وہ برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر اور یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین سے ملاقات کرنے والے تھے۔ یہ ملاقاتیں امریکہ، برطانیہ، اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی تعلقات کی مسلسل اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں، اور ٹرمپ کا ایک اہم، اگرچہ غیر سرکاری، شخصیت کے طور پر ان اعلیٰ سطحی بات چیت میں جاری کردار کو ظاہر کرتی ہیں۔

برطانیہ کے تجارتی معاہدے کا پس منظر

ان تجارتی مذاکرات کا سیاق و سباق برطانیہ کے لیے خاص طور پر متعلقہ ہے، خاص طور پر بریگزٹ کے بعد۔ برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے حال ہی میں امریکہ کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا تھا تاکہ برطانیہ سے درآمد شدہ سامان پر امریکی ٹیرف سے بچا جا سکے، ایک ایسا معاہدہ جس پر خود تنقید ہوئی تھی۔ ٹرمپ کی یہاں شمولیت، یہاں تک کہ ایک سابق صدر کے طور پر بھی، ذاتی تعلقات، سیاسی اثر و رسوخ، اور عالمی اقتصادی پالیسی کے درمیان مسلسل باہمی تعامل کا اشارہ دیتی ہے۔

ٹرمپ کی ‘گولف ڈپلومیسی’ کا جائزہ: کیا یہ بین الاقوامی تعلقات کا ایک نیا دور ہے؟

ٹرن بیری کے ایک گولف کورس سے تھائی لینڈ-کمبوڈیا تنازعہ میں ٹرمپ کی براہ راست مداخلت بین الاقوامی تعلقات کے مستقبل کے بارے میں دلچسپ سوالات اٹھاتی ہے۔ کیا یہ "گولف ڈپلومیسی” کی ایک نئی شکل ہے، جہاں سابق رہنما اپنے ذاتی اثر و رسوخ اور غیر رسمی نیٹ ورکس کو تنازعات میں ثالثی کے لیے استعمال کرتے ہیں؟

  • فوائد: اس طرح کی براہ راست بات چیت بعض اوقات دفتری رکاوٹوں کو دور کر سکتی ہے اور ذاتی تعلقات قائم کر سکتی ہے، ممکنہ طور پر امن عمل کو تیز کر سکتی ہے۔ ٹرمپ کی ایک منفرد صلاحیت کہ وہ عہدے کی رسمی رکاوٹوں کے بغیر براہ راست رہنماؤں سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں، مذاکرات کا ایک مختلف راستہ پیش کر سکتی ہے۔
  • نقصانات: سرکاری مینڈیٹ کی کمی، متضاد پیغامات کا امکان، اور قائم شدہ سفارتی پروٹوکول کے بجائے ذاتی خواہشات پر انحصار عدم استحکام اور الجھن پیدا کر سکتا ہے۔ مزید برآں، تجارتی معاہدوں کو حربے کے طور پر استعمال کرنا جبری طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور طویل مدتی سفارتی کوششوں کو کمزور کر سکتا ہے۔

یہ واقعہ، جس میں ذاتی تفریح کو غیر متوقع جیو پولیٹیکل مداخلت کے ساتھ ملایا گیا ہے، غیر روایتی خارجہ پالیسی میں ایک دلچسپ کیس اسٹڈی کے طور پر کام کرتا ہے، جو روایتی سفارت کاری کی حدود کو آگے بڑھاتا ہے۔

اندرونی لنک کا مشورہ: اپنی سائٹ پر "غیر روایتی سفارت کاری اور اس کی تاثیر” پر ایک مضمون کا لنک شامل کریں

نتیجہ: صرف ایک گولف کا دورہ نہیں

ڈونلڈ ٹرمپ کا اسکاٹ لینڈ کا حالیہ دورہ صرف ایک سادہ گولف کی چھٹی سے کہیں زیادہ تھا۔ یہ جنوب مشرقی ایشیا کے ایک غیر مستحکم تنازعہ میں ایک حیرت انگیز، اگرچہ غیر روایتی، سفارتی مداخلت کا مرحلہ بن گیا، جس نے عالمی مسائل پر براہ راست مشغول ہونے کی ان کی مسلسل آمادگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان کی موجودگی کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج نے ان سماجی تقسیموں اور جذباتی مخالفت کو اجاگر کیا جو ان کی عوامی شخصیت اور پالیسیاں مسلسل پیدا کر رہی ہیں۔ جب دنیا تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان پیدا ہونے والی صورتحال، اور احتجاج کے بعد کے حالات کو دیکھ رہی ہے، تو یہ سفر بلاشبہ اس کے برڈی اور بوگیوں کے لیے نہیں، بلکہ بین الاقوامی امن سازی میں اس کی غیر متوقع کوشش کے لیے یاد رکھا جائے گا، جس میں بھرپور حمایت اور واضح اختلاف دونوں شامل تھے۔ یہ واقعہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ عالمی رابطے اور مشہور شخصیت کی سیاست کے دور میں، ذاتی فرصت، سیاسی اثر و رسوخ، اور بین الاقوامی سفارت کاری کے درمیان کی لکیریں تیزی سے دھندلی ہو رہی ہیں، جو ایک پیچیدہ اور اکثر غیر متوقع عالمی منظرنامہ تخلیق کر رہی ہیں۔

اکثر پوچھے جانے والے سوالات (FAQs)

سوال 1: ڈونلڈ ٹرمپ اس عرصے میں اسکاٹ لینڈ میں کیا کر رہے تھے؟ جواب: ڈونلڈ ٹرمپ اسکاٹ لینڈ کے گولف دورے پر تھے، بنیادی طور پر اپنے گولف کورسز کو فروغ دینے کے لیے، جس میں ٹرمپ ٹرن بیری بھی شامل ہے، جہاں ان کی والدہ کا تعلق تھا۔

سوال 2: ٹرمپ نے جن سرحدی لڑائی میں مداخلت کی، اس میں کون سے ممالک شامل تھے؟ جواب: ڈونلڈ ٹرمپ نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحدی لڑائی میں مداخلت کی، جو طویل عرصے سے متنازعہ قدیم مندروں کے مقامات اور دیہی سرحدی علاقوں پر دوبارہ بھڑک اٹھی تھی۔

سوال 3: 26 جولائی 2025 تک تھائی لینڈ-کمبوڈیا تنازعہ میں کتنی ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں؟ جواب: 26 جولئی 2025 تک، تنازعہ کے نتیجے میں دونوں اطراف 32 افراد ہلاک ہوئے، اور 130 سے زائد زخمی ہوئے۔

سوال 4: ٹرمپ کا تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے رہنماؤں سے بنیادی مطالبہ کیا تھا؟ جواب: ٹرمپ کا بنیادی مطالبہ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان فوری جنگ بندی اور امن تھا، ان کا کہنا تھا کہ "جنگ بندی، امن، اور خوشحالی قدرتی لگتی ہے۔”

سوال 5: کیا ٹرمپ نے جنگ بندی کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی دباؤ ڈالا؟ جواب: جی ہاں، ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ وہ تھائی لینڈ یا کمبوڈیا میں سے کسی کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر آگے نہیں بڑھیں گے جب تک کہ لڑائی بند نہیں ہو جاتی، اقتصادی دباؤ کو بطور حربہ استعمال کیا۔

سوال 6: اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ میں ٹرمپ کے خلاف احتجاج کیوں ہوئے؟ جواب: اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ میں ٹرمپ کے خلاف احتجاج مختلف گروہوں کی طرف سے کیے گئے، جن میں ماحولیاتی کارکن، اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے مخالفین، اور یوکرین کے حامی گروہ شامل تھے، جو ان کی پالیسیوں اور شخصیت کے لیے گہری نفرت کی عکاسی کرتے ہیں۔

سوال 7: ٹرمپ نے اپنے دورے کے دوران تجارتی مذاکرات کے لیے کن سے ملاقات کا ارادہ کیا؟ جواب: گولف کے علاوہ، ٹرمپ نے برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر اور یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین کے ساتھ تجارتی مذاکرات کا ارادہ کیا۔

سوال 8: تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان تازہ ترین تنازعہ کی شدت کیسے بڑھی؟ جواب: تازہ ترین شدت اس وقت بڑھی جب جمعرات، 24 جولائی 2025 کو سرحد پر بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا، جس میں تھائی فوج کے پانچ اہلکار زخمی ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے